ان کےبقایا ساتھیوں نے ایک کمرے کی صفائی ستھرائی کیلئے نامزد کیا لیکن جب اس نے قالین کو ہاتھ لگایا تو اس کے نیچے بے شمار ڈالر پڑے ہوئے تھے اس صاحب نے یہ تمام رقم اکٹھی کی اور جیب میں رکھ کر سوچوں میں گم ہوگیا اور اس نے امانت کو امانت ہی سمجھا
یہ ایک زنانہ ہسپتال تھا‘ صرف ڈیلیوری کیس یہاں ہوتے تھے ان صاحب کی کوئی مریضہ اس ہسپتال میں داخل تھیں‘ مجھے ان صاحب کی باتوں سے یہی معلوم ہورہا تھا کہ یہ کسی باہر عرب ممالک میں سے کسی ملک میں کام کرتے ہیں۔ یہ بات تو بالکل صحیح تھی مگر کہاں تھے‘ مجھے تو اس سے کوئی غرض نہیں تھی مگر وہ صاحب لاہور کی ایک کالونی مریم کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ یہ نوجوان ماں باپ کا ایک ہی بیٹا تھا‘ جوانی کا عالم اور جوانی تو ویسے بھی دیوانی ہوتی ہے اور ضد یہی تھی کہ گھر بیچ دیں اور مجھے باہر بھجوادیں اب یہ اس کی (ماں باپ)کی کمزوری تھی کہ ایک اکلوتی اولاد تھی۔ اس نے اپنے ماں باپ کو راضی کرلیا اور وہ دنیا سے بے خبر۔ اس عرب دنیامیں پہنچ گیا‘ شاید جہاں ہر کوئی اپنی ہی دھن میں مگن اپنی ہی دنیا میں رہ رہے ہیں‘ انہیں کسی سے کوئی غرض نہیں تھی‘ ہر کوئی اپنے اپنے حصے اور دنیا میں مصروف تھا کسی کو کسی سے کوئی کام نہیں تھا مگر ایک سفید ریش بزرگ اس عیسائی لڑکے کی طرف ذرا التفات سے دیکھتا تھا اور اسے کچھ نہ کچھ کھانے کو دے دیتا تھا‘ اب اتفاق سے ایک دن اس بزرگ کو کسی کے گھر کی صفائی کیلئے خاکروب کی ضرورت پڑی مگر یہاں تو ایک تیار خاکروب بابا جی کے پاس تھا ہی اس خاکروب نے ہامی بھرلی اور شیخ کے گھر کی ساری صفائی کردی یہ تو اس کاکام تھا۔ اس نے پوری دلجمعی سے صفائی کاکام کردیا‘ تمام گھر میں گرد نام کی کوئی چیز نہیںچھوڑی‘ یہ صاحب اپنا کام ختم کرکے خوشی خوشی واپسی کا سوچنے لگا مگر گھر کی مالکن (شیخانی) نے ہانڈی سبزی کیلئے روپے دئیے اور وہ پیسے لیکر بازار چلا گیا تمام سامان لیکر گھر پہنچ گیا‘ گوشت‘ سبزی ہر قسم کی اشیاء لاکر رکھ دی اور بقایا رقم بھی رکھ دی مگر اس (شیخانی) نے رقم کوہاتھ نہ لگایا اور بقایا رقم اس کے حصے میں آگئی اب تو ہر روز کا معمول بن گیا بعد از صفائی اور گوشت سبزی لانا ان صاحب کا روزانہ کاکام ہوگیا۔ شیخ صاحب بھی اس صاحب سے خوش تھے ایک دن اس عیسائی لڑکے کی قسمت بدلنے والی تھی کہ ان شیخ صاحب کا ایک اور کام بھی تھا۔ (ڈیکوریشن) گھرکی تزائین و آرائش۔۔۔ تمام سامان اپنی اپنی جگہ پر لگانا‘ ان شیخ کے کام تھے اتفاقاً شیخ صاحب کا (منیجر) جو کہ انچارج تھا کسی وجہ سے پاکستان آیا ہوا تھا اس کی سیٹ پر ان صاحب کو منیجر بنادیا گیا۔ جب بھی کوئی پارٹی آتی (گھر کی آرائش کیلئے) تو شیخ صاحب کو اطلاع کردی جاتی تھی اور شیخ صاحب آن حاضر ہوجاتے تھے ۔ایک دفعہ ایک صاحب کسی بنگلہ کی ڈیکوریشن کیلئے تشریف لائے تمام سامان بدلنا تھا۔ ان کےبقایا ساتھیوں نے اس خاکروب کوایک کمرے کی صفائی ستھرائی کیلئے نامزد کیا۔ صفائی کے دوران جب اس نے قالین کو ہاتھ لگایا تو اس کے نیچے بے شمار ڈالر پڑے ہوئے تھے اس صاحب نے یہ تمام رقم اکٹھی کی اور جیب میں رکھ کر سوچوں میں گم ہوگیا اور اس نے امانت کو امانت ہی سمجھا اور اپنے پاس بطور امانت رکھ لی جب اس پارٹی کے بل ادا کرنے کا وقت آگیا تو اس عیسائی نےایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے پوری کی پوری رقم جو کہ لاکھوں روپوں کے برابر تھی اس دوسرے گاہک کے سامنے رکھ دی وہ صاحب تو بڑے حیران ہوئے اور اس گاہک نے تمام کی تمام رقم جو کہ اس کے پاس تھی اس ایماندار عیسائی کے سپرد کردی بلکہ اس کا مالک (شیخ) صاحب بھی بے حد متاثر ہوا اور اس نے اپنی جیب سے بڑی رقم ریالوں کی شکل میں ایماندار عیسائی کے سپرد کردی اور اس طرح اس عیسائی مہربان نے پوری دلجمعی کے ساتھ یہ کام بغیر کسی لالچ و طمع کے سیکھنا شروع کردیا اور آج اس ادارے کا وہ عیسائی خاکروب منیجر بن گیا۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں